Friday, 28 May 2021

ہوا کچھ یوں کہ پچھتائے بہت ہیں

 ہوا کچھ یوں کہ پچھتائے بہت ہیں

تمہیں سوچا شرمائے بہت ہیں

جسے پھولوں کے تحفے ہم نے بهیجے

اسی نے سنگ برسائے بہت ہیں

جو سچ پوچھو تو اب کے یوں ہوا ہے

تیرے غم سے بھی اکتائے بہت ہیں

چبھے پاؤں میں کانٹے، یاد آیا

کہ ہم نے پهول ٹهکرائے بہت ہیں

اور اب تو غم چهپانا آ گیا ہے

کہ آنسو پی کے مسکائے بہت ہیں

مسلسل کر لیا پت جھڑ کو مہماں

یہ موسم دل کو راس آئے بہت ہیں

یہ آنسو بھی نوازش ہیں اسی کی

کرم بهی جس نے فرمائے بہت ہیں

میری چاہت بهی سکوں میں تلی ہے

تہی دامن تهے شر مائے بہت ہیں


ثمینہ اسلم

No comments:

Post a Comment