ہوا کچھ یوں کہ پچھتائے بہت ہیں
تمہیں سوچا شرمائے بہت ہیں
جسے پھولوں کے تحفے ہم نے بهیجے
اسی نے سنگ برسائے بہت ہیں
جو سچ پوچھو تو اب کے یوں ہوا ہے
تیرے غم سے بھی اکتائے بہت ہیں
چبھے پاؤں میں کانٹے، یاد آیا
کہ ہم نے پهول ٹهکرائے بہت ہیں
اور اب تو غم چهپانا آ گیا ہے
کہ آنسو پی کے مسکائے بہت ہیں
مسلسل کر لیا پت جھڑ کو مہماں
یہ موسم دل کو راس آئے بہت ہیں
یہ آنسو بھی نوازش ہیں اسی کی
کرم بهی جس نے فرمائے بہت ہیں
میری چاہت بهی سکوں میں تلی ہے
تہی دامن تهے شر مائے بہت ہیں
ثمینہ اسلم
No comments:
Post a Comment