رشتہ کمزور ہو تو توڑ دیا جاتا ہے
پھر کہانی کو نیا موڑ دیا جاتا ہے
ہم کو اک خواب کی مہلت بھی کہاں ملتی ہے
نیند سے پہلے ہی جھنجھوڑ دیا جاتا ہے
رات وحشت کو ذرا اور بڑھا دیتی ہے
سر کو دیوار سے پھر پھوڑ دیا جاتا ہے
ان سے منزل کی حقیقت بھی کبھی پوچھی ہے
جن کو رستے میں کہیں چھوڑ دیا جاتا ہے
جب بھی لگتا ہے انہیں ہم نے بھلا ڈالا ہے
سلسلہ یاد سے پھر جوڑ دیا جاتا ہے
زہرا شاہ
No comments:
Post a Comment