وہ چاہتا تو ہے مجھے مسمار دیکھنا
ممکن نہیں مگر پسِ دیوار دیکھنا
اب اس کے انتظار میں رک ہی گئی گھڑی
وہ آئے گا تو وقت کی رفتار دیکھنا
کانٹوں کا احتساب تو کرنے ہو چل پڑے
کچھ پھولوں کا بھی دوستو کردار دیکھنا
جانے لگے ہو چھوڑ کے تو جاؤ خیر سے
واپس نہ مڑ کے پھر کبھی سرکار دیکھنا
چھوڑو طبیب یار اسے لاؤ ڈھونڈ کے
ہوتا ہے کیسے ٹھیک یہ بیمار دیکھنا
چپ دوستی کے نام پہ شہزاد ہوں کھڑا
دشمن جو آئے سامنے للکار دیکھنا
شہزاد جاوید
No comments:
Post a Comment