یہ آنکھیں اب بھلا کیسے تمہیں سوچیں
تمہارے نقش پھیلے ہیں ہوا میں چار سُو دیکھو
تمہارے خواب کا موسم
بدن کی سرحدِ ادراک سے آگے کا قصہ ہے
کبھی دریا کے پانی پر تمہارا عکس بنتا ہے
کبھی کوئی دھنک ان آسمانوں پر تمہارا نام لکھتی ہے
کبھی کرنوں کا اجلا پن
کبھی رنگوں کی اک بارش
کبھی تم چاند رخشاں سے
کبھی روشن ستارہ ہو
تمہارے روپ کی لو اس جہاں میں جگمگاتی ہے
تمہارا حسن ہر منظر کے اندر جھلملاتا ہے
زمیں کی وسعتوں سے دور تک آفاق میں تم ہو
یہ آنکھیں اب بھلا کیسے تمہیں سوچیں
ازہر ندیم
No comments:
Post a Comment