کوئی نوحہ سنائی دے رہا ہے
غم یوں دل میں دہائی دے رہا ہے
فرقتوں کی طویل شاموں میں
درد ہنستا دکھائی دے رہا ہے
وہ نہ لوٹے گا کیسے مانے دل
نامہ بر کیوں ہوائی دے رہا ہے
چرب گو ہے کمال کا تو صنم
میرے دل تک رسائی دے رہا ہے
تجھ سے مانگی تھی وصل کی گھڑی پر
عمر کی تو جدائی دے رہا ہے
جس کے مرنے پہ غم زدہ ہیں سبھی
ہجر اس کو رہائی دے رہا ہے
دکھ میں سائر سلگ ہی تو رہی ہوں
کاہے سورج نوائی دے رہا ہے
سائرہ سائر
No comments:
Post a Comment