میں مستی میں چل جو چال آیا کمال آیا
کہ ٹال ہستی کا جال آیا، کمال آیا
مثال میرے عروج کی دیتا تھا زمانہ
عروج کو جب زوال آیا، کمال آیا
تھے سر نِگوں جو ہیں آج آنکھیں دکھا رہے وہ
جو بھوکوں کے ہاتھ مال آیا، کمال آیا
حسیں بہت ہیں، ہیں خوبرو بھی زمانے بھر میں
مگر جو تم پر جمال آیا، کمال آیا
مگن محبت میں دونوں پورے وثوق سے تھے
مگر جوں ہی احتمال آیا، کمال آیا
جو بچھڑے پچھلے برس تھے لوٹے رواں برس وہ
جو سال کے بعد سال آیا، کمال آیا
یہ شعر کہنا کسے تھا آتا کہاں تھا سیکھا
ہجر کا جب سے وبال آیا، کمال آیا
توصیف زیدی
No comments:
Post a Comment