لمحۂ کن میرے گمان میں ہے
نقش ابھرا ہوا چٹان میں ہے
کھول کر بادباں سر ساحل
ناخدا بھی تو امتحان میں ہے
کہہ رہی ہے ہوا کی سرگوشی
وہ شکاری ابھی مچان میں ہے
دائرہ ہے تیری مسافت کا
سلسلہ جو میری تکان میں ہے
گاؤں کی کچی پکی سڑکوں پر
اک اکیلا تِرے گمان میں ہے
اکرام الحق
No comments:
Post a Comment