جنہیں اُٹھانا تھا اُن کو گرایا جا رہا ہے
جنہیں گرانا تھا اُن کو بچایا جا رہا ہے
سبھی کو دعویٰ ہے لیکن خبر کسی کو نہیں
کہ اس نظام کو کیسے چلایا جا رہا ہے
عجیب لوگ ہیں، جس کو ہنر جو آتا نہیں
یہاں وہ کام اُسی سے کرایا جا رہا ہے
حضور آپ کسی کام کے نہیں رہے ہیں
لہٰذا آپ کو آقا بنایا جا رہا ہے
جوہم نہیں ہیں تو پھر اور کوئی بھی کیوں ہو
اسی لیے تو سبھی کچھ گرایا جا رہا ہے
خرابی زید کی صحت میں ہے پرانی یہاں
مگر علاج بکر کا کرایا جا رہا ہے
ہواکے ساتھ ہے برسات بھی سو مجھ کو کچھ
اُڑایا جا رہا ہے، کچھ بہایا جا رہا ہے
تمہارے وصل سے یہ راز تو کھُلا مجھ پر
وہ ہجر اور ہے جس سے ڈرایا جا رہا ہے
کہیں کسی نے مجھے مار ہی نہ ڈالا ہو
گلی میں شور یہ کیسا مچایا جا رہا ہے
کوئی بھی چل نہیں سکتا مِرے سوا اس پر
کچھ اس طریقے سے رستہ بنایا جا رہا ہے
ضمیر میں نے لگانا ہے اس کو پیچھے کبھی
یہ راستا جو ابھی آگے جایا جا رہا ہے
ضمیر طالب
No comments:
Post a Comment