Friday 28 May 2021

ضبط کی قید سخت نے ہم کو رہا نہیں کیا

 ضبط کی قید سخت نے ہم کو رہا نہیں کیا

درد پہ درد اٹھا مگر شور بپا نہیں کیا

دنیا نے کیا نہیں کیا ہم نے گلہ نہیں کیا

سب سے برائی لی مگر تم کو خفا نہیں کیا

جو بھی مطالبہ ہوا عذر ذرا نہیں کیا

اب تو نہیں کہو گے تم وعدہ وفا نہیں کیا

عمر گزر گئی تمہیں اپنا نہیں بنا سکے

سہنے کو کیا نہیں سہا کرنے کو کیا نہیں کیا

ہاتھ میں اپنا ہاتھ دو آؤ ہمارا ساتھ دو

اس کا بھی دل تو تھا مگر دل کا کہا نہیں کیا

میں تو مریض عشق ہوں میری صحت صحت نہیں

اچھا مجھے نہیں کیا تم نے برا نہیں کیا

شاید وہ دن بھی آئے گا جس دن کہیں گے ہم سے وہ

انجم میں شرمسار ہوں تیرا کہا نہیں کیا


صوفیہ انجم تاج

No comments:

Post a Comment