Friday, 28 May 2021

بچھڑ گئے تو دوبارہ رستے نہیں ملیں گے

 بچھڑ گئے تو دوبارہ رستے نہیں ملیں گے

یہ خواب مہنگے ہیں یار سستے نہیں ملیں گے

وہ جِن پہ شعروں کی شکل میں زندگی لکھی تھیں

وہ کاپیاں، وہ پرانے دستے نہیں ملیں گے

تمہارے ہونٹوں سے ہے کشیدہ غمِ محبت

ہمارے ہونٹ اب کبھی بھی ہنستے نہیں ملیں گے

انہیں پلایا ہے خون اپنا بہت برس سے

یہ میرے اپنے کسی کو ڈستے نہیں ملیں گے

کبھی جو روہی میں تم پکارو تو یاد رکھنا

تمہیں یہ بادل کبھی برستے نہیں ملیں گے

یہیں کہیں پہ کسی کی سسی مَری پڑی تھی

تمہیں یہ گاؤں کبھی بھی بستے نہیں ملیں گے

ہمی سے ہے ساحلوں کی ساری الم نصیبی

ہمی وہ دونوں ہیں جو ترستے نہیں ملیں گے


ذکی عاطف

No comments:

Post a Comment