Thursday, 30 May 2013

شہر کے شہر روند کر دشت بنا دیئے گئے

شہر کے شہر روند کر، دشت بنا دیئے گئے
 اسپ چڑھا دیئے گئے، فیل بڑھا دیئے گئے
 صلح تو ہو نہیں سکی، فاصلے اور بڑھ گئے
 لوگ ہوا دیئے گئے، دوست لڑا دیئے گئے
 صبح کو شام کھا گئی، شام پہ رات چھا گئی
 خیمے جلا دیئے گئے، دِیے بجھا دیئے گئے

منزلوں پہ منزلیں رستوں میں رستے رہ گئے

 منزلوں پہ منزلیں رَستوں میں رَستے رہ گئے
 ہم بگولے اپنے اندر ہی بھٹکتے رہ گئے
 شہر کی گلیوں کو مفلس دھوپ کا دکھ کھا گیا
 ٹھنڈے کمروں میں ہرے بادل برستے رہ گئے
 بھوک کی میلی چٹائی پر امیدیں سو گئیں
 خشک آنسو پیاس کے مارے بِلکتے رہ گئے