آنکھوں سے خواب، دل سے تمنا تمام شُد
تم کیا گئے، کہ شوقِ نظارا تمام شد
کل تیرے تشنگاں سے یہ کیا معجزہ ہوا
دریا پہ ہونٹ رکھے، تو دریا تمام شد
دنیا تو ایک برف کی سِل سے سوا نہ تھی
پہنچی ذرا جو آنچ، تو دنیا تمام شد
دھیان سے اے رفو گرو! ہجر کا زخم بھر نہ جائے
جی کا جو حال ہو سو ہو ، بات ادھر ادھر نہ جائے
خانہ بدر عزیز دل، رات کا رہ روِخجل
یوں ہی پھرے اٹھائے سل، رات ڈھلے بھی گھر نہ جائے
مت یہ اسے بتا صبا، سینۂ گل میں داغ ہے
اور وہ کوئی چراغ ہے، وہ یہ سنے تو مر نہ جائے