یہ وصال ہے کہ فراق ہے دلِ مبتلا کو پتا رہے
جو یہ پھول ہے تو کھلا رہے جو یہ زخم ہے تو ہرا رہے
تیرے انتظار کے سلسلے ہیں میانِ دستک و دَر کہیں
یہی آس ہے تو بندھی رہے یہ چراغ ہے تو جلا رہے
یونہی بھولے بھٹکے جو آ گئے ہیں ادھر تو اتنی ہوا نہ دے
کسی چشمِ وعدہ کی لہر ہے بڑا دلگرفتہ یہ شہر ہے
سو ہوائے محرمِ دوستاں تیرے سلسلوں کا پتا رہے
یہ سراۓ صبح کے ساتھ ہی مجھے چھوڑنی ہے غزالِ شب
تیری چشمِ رمز و کنایہ میں کوئی خواب ہے تو سجا رہے
سلیم کوثر
No comments:
Post a Comment