Tuesday 12 March 2019

یہ وصال ہے کہ فراق ہے دل مبتلا کو پتا رہے

یہ وصال ہے کہ فراق ہے دلِ مبتلا کو پتا رہے
جو یہ پھول ہے تو کھلا رہے جو یہ زخم ہے تو ہرا رہے
تیرے انتظار کے سلسلے ہیں میانِ دستک و دَر کہیں
یہی آس ہے تو بندھی رہے یہ چراغ ہے تو جلا رہے
یونہی بھولے بھٹکے جو آ گئے ہیں ادھر تو اتنی ہوا نہ دے
کہ غبارِ کوئے ملامتاں کوئی واقعہ تو چھپا رہے
کسی چشمِ وعدہ کی لہر ہے بڑا دلگرفتہ یہ شہر ہے
سو ہوائے محرمِ دوستاں تیرے سلسلوں کا پتا رہے
یہ سراۓ صبح کے ساتھ ہی مجھے چھوڑنی ہے غزالِ شب
تیری چشمِ رمز و کنایہ میں کوئی خواب ہے تو سجا رہے

سلیم کوثر

No comments:

Post a Comment