رکھنا تھا لڑائی میں اصولوں کا بھرم بھی
گرنے نہ دیا خاک پہ دشمن کا علم بھی
تنہا بھی نظر آؤں تو تنہا نہ سمجھنا
ہوتے ہیں مِرے ساتھ کئی اہلِ عدم بھی
جانا ہے جدھر جس کو چلا جائے خوشی سے
اک روز دبے پاؤں چرا لے گئی دنیا
ہونٹوں کا تبسم ہی نہیں آنکھ کا نم بھی
پھیلائے نہیں ہاتھ نوالے کی طلب میں
ہر چند کئی روز سے خالی ہے شکم بھی
کھینچے لیے جاتی ہے مدینے کی محبت
کچھ شاملِ احوال ہے قدرت کا کرم بھی
وہ لوگ جنہیں لوٹ کے آنا ہی نہیں تھا
جاتے ہوئے کیوں چھوڑ گئے نقشِ قدم بھی
ہنگامہ طلب شہر کی پر شور فضا میں
چپ رہتے ہوئے لگ گئے دیوار سے ہم بھی
سید انصر
No comments:
Post a Comment