Monday, 25 March 2019

رکھنا تھا لڑائی میں اصولوں کا بھرم بھی

رکھنا تھا لڑائی میں اصولوں کا بھرم بھی
گرنے نہ دیا خاک پہ دشمن کا علم بھی
تنہا بھی نظر آؤں تو تنہا نہ سمجھنا
ہوتے ہیں مِرے ساتھ کئی اہلِ عدم بھی
جانا ہے جدھر جس کو چلا جائے خوشی سے
اب سامنے موجود خدا بھی ہے صنم بھی
اک روز دبے پاؤں چرا لے گئی دنیا
ہونٹوں کا تبسم ہی نہیں آنکھ کا نم بھی
پھیلائے نہیں ہاتھ نوالے کی طلب میں 
ہر چند کئی روز سے خالی ہے شکم بھی
کھینچے لیے جاتی ہے مدینے کی محبت
کچھ شاملِ احوال ہے قدرت کا کرم بھی
وہ لوگ جنہیں لوٹ کے آنا ہی نہیں تھا
جاتے ہوئے کیوں چھوڑ گئے نقشِ قدم بھی
ہنگامہ طلب شہر کی پر شور فضا میں 
چپ رہتے ہوئے لگ گئے دیوار سے ہم بھی

سید انصر

No comments:

Post a Comment