تیرا اقرار، بھی انکار سے کچھ ملتا ہے
کون ہے تُو جو مِرے یار سے کچھ ملتا ہے
خواہشیں ہیں کہ کھلونوں کی طرح بکتی ہیں
دل کا آنگن بھی تو بازار سے کچھ ملتا ہے
وقت کے ہاتھ مجھے لا کے جہاں چھوڑ گئے
آگ کا رنگ لیے پھول کھلا ہے جو ابھی
یہ گلِ تر کسی رخسار سے کچھ ملتا ہے
طنز لہجے میں چھپا، آنکھ وفا سے خالی
اجنبی، میرے طرفدار سے کچھ ملتا ہے
میرے وجداں نے عجب بات بتائی ہے مجھے
بے طلب وصل بھی آزار سے کچھ ملتا ہے
بھول بیٹھے ہیں مِرے ہاتھ بھی دستک دینا
اس پہ وہ در بھی تو دیوار سے کچھ ملتا ہے
میری آنکھوں میں لہو ہے تو تعجب کیسا
تیرا لہجہ بھی تو تلوار سے کچھ ملتا ہے
لوگ جو زین سے ملتے ہیں یہی کہتے ہیں
ایک صحرا ہے جو گلزار سے کچھ ملتا ہے
اشتیاق زین
No comments:
Post a Comment