آب و گِل کے زخم لے کر موسموں کے پیار سے
خشک پتے دیر تک چمٹے رہے اشجار سے
میری پلکوں پر گھنیری دھوپ کا صحرا اتار
میں اندھیرے چن رہا ہوں صبح کے رخسار سے
ڈوب جاتی ہیں کنارے کی حدوں میں کشتیاں
میں تو آوارہ سہی پر شام کے ڈھلنے تلک
میرا سایہ آن ملتا ہے تِری دیوار سے
خواہشِ تعمیر اندیشوں کی زد میں آ گئی
بے گھری کی رسم چل نکلی درو دیوار سے
گھر کی ویرانی تو میرا ساتھ دینے سے رہی
میں کھلونے لے بھی آؤں گا اگر بازار سے
بجھ گیا دل کا اجالا چشم پوشی میں سلیمؔ
چِھن گئیں سچائیاں تک لہجہ و گفتار سے
سلیم کوثر
No comments:
Post a Comment