سیاہ خانۂ امیدِ رائیگاں سے نِکل
کھلی فضا میں ذرا آ، غبارِ جاں سے نکل
عجیب بِھیڑ یہاں جمع ہے ، یہاں سے نکل
کہیں بھی چل مگر اِس شہرِ بے اماں سے نکل
اِک اور راہ، اُدھر دیکھ ، جا رہی ہے وہیں
یہ لوگ آتے رہیں گے، تُو درمیاں سے نکل
وہ سامنے ہوں مِرے اور نظر جھکی نہ رہے
متاع زیست لٹا کر کوئی کمی نہ رہے
دئیے جلائے ہیں میں نے کھلے دریچوں پر
اے تند و تیز ہوا! تجھ کو برہمی نہ رہے
بتاؤ ایسا بھی منظر نظر سے گزرا ہے
چراغ جلتے رہیں اور روشنی نہ رہے