Tuesday, 27 November 2018

تم نے جو درد کیے میرے حوالے گن لو

اس سے پہلے کہ کوئی ان کو چرا لے، گِن لو 
تم نے جو درد کیے میرے حوالے، گن لو
چل کے آیا ہوں، اٹھا کر نہیں لایا گیا میں 
کوئی شک ہے تو مرے پاؤں کے چھالے گن لو
جب میں آیا تو اکیلا تھا، گنا تھا تم نے
آج ہر سمت مِرے چاہنے والے گن لو

تمہارے جسم میں شہد اور نمک برابر ہے

خدا نے تول کے گوندھے ہیں ذائقے تم میں
تمہارے جسم میں شہد اور نمک برابر ہے
وہ حسن تم کو زیادہ دیا ہے فطرت نے
جو حسن پھول سے مہتاب تک برابر ہے
ہر ایک صحن میں تو چاندنی چھٹکتی نہیں
جمالِ یار پہ کب سب کا حق برابر ہے

تمام ان کہی باتوں کا ترجمہ کر کے

تمام ان کہی باتوں کا ترجمہ کر کے 
کوئی بتائے ان آنکھوں کا ترجمہ کر کے
سناؤں گا نہیں لیکن کہا تو ہے اک شعر 
تمہاری ساری اداؤں کا ترجمہ کر کے
میں کافی باتیں پسِ گفتگو بھی کرتا ہوں 
مجھے سنو مِری سوچوں کا ترجمہ کر کے

Tuesday, 13 November 2018

اک دعا نے بچا لیا ہے ہمیں

اک دعا نے بچا لیا ہے ہمیں
ورنہ کس کس کی بد دعا ہے ہمیں
اس کی رسوائیوں کا ڈر بھی ہے
اور کہنا بھی برملا ہے ہمیں 
وصل کی آرزو بھی ہے دل میں
ہجر کا دکھ بھی جھیلنا ہے ہمیں

یاد کرنے پہ نہ یاد آئیں زمانے ہو جائیں

یاد کرنے پہ نہ یاد آئیں زمانے ہو جائیں
وہ نئے حرف نہ لکھو جو پرانے ہو جائیں
ہم سخاوت ہی پہ آمادہ نہیں ہیں، ورنہ
دل ہمارے بھی محبت کے خزانے ہو جائیں
کون پرچھائیوں کے عکس کو پہچانے گا
گھر اگر گھر نہ رہیں، آئینہ خانے ہو جائیں

بنام دل فگاراں کج ادا آتی رہے گی

بنامِ دل فگاراں کج ادا آتی رہے گی
دریچے کھول کر رکھنا ہوا آتی رہے گی
کوئی موسم بھی ہو امید کا دامن نہ چھوٹے
خبر آئے نہ آئے، پر صبا آتی رہے گی
کہاں تک تم نظر انداز کر پاؤ گے مجھ کو
جہاں بھی جاؤ گے میری صدا آتی رہے گی

اب اس کے بعد کوئی رہگزر عزیز نہیں

اب اس کے بعد کوئی رہگزر عزیز نہیں
سفر عزیز ہے، اور ہمسفر عزیز نہیں
میں ناتواں صحیح لیکن مجھے پکار کے دیکھ
تیری طلب سے زیادہ تو سر عزیز نہیں
چراغ ہے نہ کوئی انتظار ہے، ورنہ
تمہی کہو کہ کسے بام و در عزیز نہیں

Saturday, 10 November 2018

دکھ؛ قصرِ سفید میں بیٹھا خون آشام درندہ

دکھ

قصرِ سفید میں بیٹھا خون آشام درندہ
کس انجیل کا پیرو ہے؟
دین کے نام پہ دہشت نافذ کرنے والے
کس قرآن کے طالب ہیں؟
روشن روشن چہروں والے
مہکی مہکی زلفوں والے

مجھے عشق فقیر بلاتا ہے

مجھے عشق فقیر بلاتا ہے

اک دید مجھے اکساتی ہے
کوئی آیت یاد دلاتی ہے
اک مصحف سامنے آتا ہے
مجھے عشق فقیر بلاتا ہے

آ حیرت کو حیران کریں
اس بھید بھری خلوت اندر

Monday, 5 November 2018

خط ہجراں آج سے نوحہ گری ہو گی

خطِ ہجراں

آج سے ضبط کے صحرا کی طرف چلنا ہے 
آج سے قرض اٹھانے ہیں تِرے غم کے بس
آج سے بجھتے چراغوں سے سخن کرنے ہیں
آج سے یاد کے موسم کی ہوا چلنی ہے
آج سے بوجھ تمناؤں کے اٹھائے پھروں گی 
آج سے اشک فشانی پہ جوانی ہو گی

جس کو دیکھو وہ خدا بنتا ہے

اپنے قامت سے بڑا بنتا ہے
جس کو دیکھو وہ خدا بنتا ہے
ہم تو جیسے بھی بنے بن گئے ہیں
دیکھیے آپ کا کیا بنتا ہے
وہ مِرا تیرے سوا بنتا نہیں 
جو مِرا تیرے سوا بنتا ہے

Sunday, 4 November 2018

اے وائے بر حرف ہنر

اے وائے بر حرفِ ہنر

سورج سوا نیزے پہ اور نیزہ مرے سینے کے پار
اور ہر طرف زندہ لہو کی آگ میں جھلسے ہوئے، جلتے ہوئے لفظوں کے بیچ
"اک نسخۂ "مہر دونیم
اور اک بھیانک چیخ، پھر اک قہقہہ
پھر ایک آوازِ فغاں

اور ہوا چپ رہی

اور ہوا چپ رہی

شاخِ زیتون پر کم سخن فاختاؤں کے اتنے بسیرے اجاڑے گئے
اور ہوا چپ رہی
بے کراں آسمانوں کی پہنائیاں بے نشیمن شکستہ پروں کی تگ و تاز پر بین کرتی رہیں
اور ہوا چپ رہی
زرد پرچم اڑاتا ہوا لشکرِ بے اماں گُل زمینوں کو پامال کرتا رہا

احتجاج

احتجاج

اور سنا ہے
ایک چمگادڑ چنبیلی کے مہکتے کنج میں دم توڑتی
دیکھی گئی ہے
سنا ہے خوشبوؤں میں اس کا دَم گھٹنے لگا تھا
اور ننھے پھول سورج بن کے اس کی بے یقین

ایک رخ

ایک رخ

وہ فرات کے ساحل پر ہوں یا کسی اور کنارے پر
سارے لشکر ایک طرح کے ہوتے ہیں
سارے خنجر ایک طرح کے ہوتے ہیں
گھوڑوں کی ٹاپوں میں روندی ہوئی روشنی
دریا سے مقتل تک پھیلی ہوئی روشنی

Saturday, 3 November 2018

محبت کی رنگینیاں چھوڑ آئے

محبت کی رنگینیاں چھوڑ آئے
ترے شہر میں اک جہاں چھوڑ آئے
وہ سبزہ، وہ دریا، وہ پیڑوں کے سائے
وہ گیتوں بھری بستیاں چھوڑ آئے
پہاڑوں کی وہ مست شاداب وادی
جہاں ہم دلِ نغمہ خواں چھوڑ آئے

وہ کہہ رہے ہیں محبت نہیں وطن سے مجھے

وہ کہہ رہے ہیں محبت نہیں وطن سے مجھے
سکھا رہے ہیں محبت مشین گن سے مجھے
میں ’بے شعور ہوں‘ کہتا نہیں ستم کو کرم
یہی خطاب ملا ان کی انجمن سے مجھے
سِپر جو شہ کی بنے، غاصبوں کے کام آۓ
خدا بچاۓ رکھے ایسے علم و فن سے مجھے

حبیب جالب

ناموس کے جھوٹے رکھوالو تم وحشی ہو تم قاتل ہو

تم وحشی ہو تم قاتل ہو

ناموس کے جھوٹے رکھوالو
بے جرم ستم کرنے والو
کیا سیرت نبویﷺ جانتے ہو؟ 
کیا دین کو سمجھا ہے تم نے؟ 
کیا یاد بھی ہے پیغام نبیﷺ؟ 
کیا نبیﷺ کی بات بھی مانتے ہو؟ 

Friday, 2 November 2018

یک دم کوئی دل دھڑکا

یکدم کوئی دل دھڑکا
شعلہ سا کہیں بھڑکا
جب تک کوئی سمجھے
لو پھوٹ بہے دھارے
آوازیں ملیں باہم
اور گونج اٹھے نعرے 

کوتوال بیٹھا ہے کیا بیان دیں اس کو

کوتوال بیٹھا ہے
کیا بیان دیں اس کو
جان جیسے تڑپی ہے
کچھ عیاں نہ ہو پائے
وہ گزر گئی دل پر جو بیاں نہ ہو پائے
ہاں لکھو کہ سب سچ ہے، سب درست الزامات

مری چنبیلی کی نرم خوشبو

مِری چنبیلی کی نرم خوشبو
ہوا کے دھارے پہ بہہ رہی ہے
ہوا کے ہاتھوں میں کھیلتی ہے
تِرا بدن ڈھونڈنے چلی ہے
مِری چنبیلی کی نرم خوشبو
مجھے تو زنجیر کر چکی ہے