Tuesday, 30 April 2019

اس نے میٹنگ بلائی

اس نے میٹنگ بلائی
کہا لوگ دن رات کنٹرول میں ہیں
ٹیپ منہ پر لگائی
کہا سب بیانات کنٹرول میں ہیں
اس نے گولی چلائی
کہا سر جی، حالات کنٹرول میں ہیں

عقلیت پسندی سے اقلیت پسندی تک

عقلیت پسندی سے اقلیت پسندی تک

دیگر میرے خلاف بول رہے ہیں
اکثر اپنے حق میں خاموش ہیں
مرده پرستی کی کلاس ختم 
ہیرو ورشپ کا پیریڈ شروع
پرانے بتوں کو توڑ مروڑ کر
جوڑ لیے گئے ہیں نت نئے بت

Monday, 29 April 2019

اپنا اپنا جسم اپنی مملکت بنتی تو ہے

اپنا اپنا جسم اپنی مملکت بنتی تو ہے 
چار چھ فٹ کی سہی پر سلطنت بنتی تو ہے
زندگی نے جس جہنم سے گزارا ہے ہمیں 
بعد مرنے کے ہماری مغفرت بنتی تو ہے
جس پہ رنگ و نور کے در وا کرے تیرا بدن 
اس اندھیرے میں چراغوں کی بچت بنتی تو ہے

Tuesday, 23 April 2019

سب پیچ و تاب شوق کے طوفان تھم گئے

سب پیچ و تاب شوق کے طوفان تھم گئے
وہ زلف کھل گئی، تو ہواؤں کے خم گئے
ساری فضا تھی وادئ مجنوں کی خوابناک
جو روشناسِ مرگِ محبت تھے، کم گئے
وحشت سی ایک لالۂ خونِیں کفن سے تھی
اب کے بہار آئی تو سمجھو کہ ہم گئے

کچھ کرم ہم گوشہ گیروں پر بھی فرمایا کرو

کچھ کرم ہم گوشہ گیروں پر بھی فرمایا کرو
شہر میں آتے ہی رہتے ہو، ادھر آیا کرو
زندگی ہے دام اندر دام، دل کی کیا بساط
اک گرفتارِ بلا کو لاکھ سمجھایا کرو
ہمسفر برحق، مگر اک جائے رشکِ غیر ہے
آدمی کمبخت کوئی معتبر لایا کرو

Monday, 22 April 2019

اوس کی طرح خواب تھے آنکھیں نمی سے بھر گئے

اوس کی طرح خواب تھے آنکھیں نمی سے بھر گئے
رات تھی اپنی زندگی، صبح ہوئی تو مر گئے
دیکھ ہمیں تُو غور سے، تیرے جہانِ عشق میں
ہم وہ عجیب لوگ ہیں، آئے بھی اور گزر گئے
پاؤں تو کٹ چکے مِرے، شوقِ سفر کا کیا کروں
اب وہ مسافتیں کہاں، جب سے وہ ہمسفر گئے

سنو اے دشمنان دل معافی ہے معافی ہے

سنو اے دشمنانِ دل، معافی ہے، معافی ہے
تم اس کو راکھ کر ڈالو کہ جو ہم میں اضافی ہے
تمہارے واسطے ایمان بھی، دنیا بھی، جنت بھی
ہمارے واسطے بس عشق ہے اور عشق کافی ہے
تِرے اذکار سے کیوں 'آخرت' کے لالچی ٹھہریں
ہم ایسے بے غرض لوگوں کو تیرا حسن کافی ہے

اب تجھ سے نہیں کوئی بھی تکرار مرے یار

اب تجھ سے نہیں کوئی بھی تکرار مِرے یار
میں مان گیا میری ہوئی ہار، مرے یار
ممکن ہے مری ہار سے بچ جاۓ تِری جان
تلوار اٹھا اور مجھے مار، مرے یار
میں یونہی نہیں بھاگا تھا صحراؤں کی جانب
آواز سنی تھی کہ مرے یار، مرے یار

محبت کے لیے کب لازمی ہے

محبت کے لیے کب لازمی ہے

مجھے تو ڈوبنا ہے، کنارا مسئلہ ہے کشتیوں کا
میں محبت ہو چکا ہوں، اب مجھے تو ڈوبنا ہے
یہ ہونا اور نہ ہونا یا کسی کو پانا اور پھر پا کے کھونا
محبت کے لیے کب لازمی ہے؟
محبت تو جہاں ہوتی ہے، وہ اس کا علاقہ بنتا جاتا ہے

Saturday, 13 April 2019

خونرنگ خموشی کی گرہ کھولنے والے

خوں رنگ خموشی کی گِرہ کھولنے والے
یاں کاٹ دئیے جاتے ہیں سر بولنے والے
ہر پنجرہ کسی دوسرے پنجرے میں پڑا ہے
اڑ کر بھی کہاں جائیں گے پر تولنے والے
ممکن ہے کسی روز قلم کر دیئے جائیں
یہ ہاتھ کتابوں کے ورق پھولنے والے

Monday, 8 April 2019

وطنیت پر ایک نظم

میں
تمام نوعِ انسانی کو
ایک خاندان سمجھتا ہوں
اور دیکھنا چاہتا ہوں
وطنیت کے اس ناپاک تخیل کو
جو
خود غرضی

اے وطن ہم ہیں تیری شمع کے پروانوں میں

ملی ترانہ

اے وطن ہم ہیں تیری شمع کے پروانوں میں
زندگی ہوش میں ہے جوش ہے ایمانوں میں

دلِ عشاق کی مانند یہ تپتے میداں
یہ لچکتے ہوئے جنگل یہ تھرکتے ارماں
یہ پہاڑوں کی گھٹاؤں میں جوانی کی اٹھان
یہ مچلتے ہوئے دریاؤں میں انگڑائی کی شان

Sunday, 7 April 2019

گل تو اس خاک داں سے آتے ہیں

گل تو اس خاکداں سے آتے ہیں
رنگ ان میں کہاں سے آتے ہیں
باہر آتے ہیں آنسو اندر سے
جانے اندر کہاں سے آتے ہیں
پھول بھی بھیجتا ہے تحفے میں
تیر جس کی کماں سے آتے ہیں

خواب آرام نہیں خواب پریشانی ہے

خواب آرام نہیں، خواب پریشانی ہے
میرے بستر میں اذیت کی فراوانی ہے
مجھ کو تو وہ بھی ہے معلوم، جو معلوم نہیں
یہ سمجھ بوجھ نہیں ہے، مِری نادانی ہے
کچھ اسے سوچنے دیتا ہی نہیں اپنے سِوا
میرا محبوب تو میرے لیے زندانی ہے

کسی بلا میں گرفتار ہونے والا ہے

کسی بلا میں گرفتار ہونے والا ہے
یہ شہر بے در و دیوار ہونے والا ہے
جو دیکھنا ہے اسے دیکھ لے کہ یہ منظر
ذرا سی دیر میں ہموار ہونے والا ہے
جو بھولنا ہے اسے بھول جا کہ کچھ پَل بعد
یہ کام اور بھی دشوار ہونے والا ہے

شیشے کا یہ مکان ابھی ہے ابھی نہیں

شیشے کا یہ مکان ابھی ہے، ابھی نہیں
یہ دل کی آن بان ابھی ہے، ابھی نہیں
اِس شہر میں کرے بھی کوئی بود و باش کیا
یہ شہر میری جان! ابھی ہے، ابھی نہیں
اک کھیل ہے جو کھیلتی رہتی ہے اس کی یاد 
سینے پہ یہ چٹان ابھی ہے، ابھی نہیں

اب بھی اکثر دھیان تمہارا آتا ہے

اب بھی اکثر دھیان تمہارا آتا ہے
دیکھو گزرا وقت دوبارا آتا ہے
آہ نہیں آتی ہے اب تو ہونٹوں تک
سینے سے بس اک انگارا آتا ہے
جانے کس دنیا میں سوتی جاگتی ہیں
جن آنکھوں سے خواب ہمارا آتا ہے

Saturday, 6 April 2019

چار سو ہیں سناٹے

چار سُو ہیں سنّاٹے
ہر طرف ہے ویرانی
ذوقِ وصل کی اب تو
خاک بھی نہیں باقی
رہ گئی تھی اک خواہش
میں نہ اس کو یاد آؤں

کب دور تلک دیکھا

کب دور تلک دیکھا 
لرزاں تھی زمیں کس پل 
کب سُوئے فلک دیکھا 
کب دشت کی تنہائی 
آنکھوں میں اتر آئی 
کب وہم سماعت تھی 

Wednesday, 3 April 2019

ترے پیار کا نام

تِرے پیار کا نام

دل پہ جب ہوتی ہے یادوں کی سنہری بارش
سارے بیتے ہوۓ لمحوں کے کنول کھلتے ہیں
پھیل جاتی ہے تِرے حرفِ وفا کی خوشبو
کوئی کہتا ہے مگر روح کی گہرائی سے
شدتِ تشنہ لبی بھی ہے تِرے پیار کا نام

علی سردار جعفری

چاند کو رخصت کر دو

چاند کو رخصت کر دو 

میرے دروازے سے اب چاند کو رخصت کر دو 
ساتھ آیا ہے تمہارے جو تمہارے گھر سے 
اپنے ماتھے سے ہٹا دو یہ چمکتا ہوا تاج 
پھینک دو جسم سے کرنوں کا سنہرا زیور 
تم ہی تنہا مِرے غم خانے میں آ سکتی ہو 
ایک مدت سے تمہارے ہی لیے رکھا ہے 

پھر اک دن ایسا آئے گا

پھر اک دن ایسا آئے گا
آنکھوں کے دئیے بجھ جائیں گے
ہاتھوں کے کنول کمھلائیں گے
اور برگ زباں سے نطق و صدا
کی ہر تتلی اڑ جائے گی
اک کالے سمندر کی تہ میں
کلیوں کی طرح سے کھلتی ہوئی

گفتگو بند نہ ہو

نظم

گفتگو بند نہ ہو
بات سے بات چلے
صبح تک شامِ ملاقات چلے
وہ جو الفاظ کے ہاتھوں میں ہے سنگِ دشنام
طنز چھلکائے تو چھلکایا کریں زہر کے جام

Tuesday, 2 April 2019

مورے اندر میل بھری

گیت

مورے اندر میل بھری سیاں
مورے اندر میل بھری 

گِیتوں کی گٹھڑی باندھ کے میں من کے گاؤں گیا 
آیا تھا بلاوا مِیت کا میں ننگے پاؤں گیا 
شبدوں کی راکھ تھی ہاتھ میں آنکھوں میں ریت دھری 
مورے اندر میل بھری سیاں

اب جو منظر ہے یہ منظر ہو نہ ہو چلتے بنو

اب جو منظر ہے یہ منظر ہو نہ ہو، چلتے بنو
کیمرے سے خواب کی تصویر لو، چلتے بنو
باؤ جی! دنیا سرائے ہے کوئی رکتا نہیں 
چائے پانی پی چکے ہو تو اٹھو، چلتے بنو
اس جزیرے پر محبت ڈھونڈنا جائز نہیں 
خیر چھوڑو آ گئے ہو ڈھونڈ لو، چلتے بنو