شیشے کا یہ مکان ابھی ہے، ابھی نہیں
یہ دل کی آن بان ابھی ہے، ابھی نہیں
اِس شہر میں کرے بھی کوئی بود و باش کیا
یہ شہر میری جان! ابھی ہے، ابھی نہیں
اک کھیل ہے جو کھیلتی رہتی ہے اس کی یاد
بس دو گھڑی کی دھوپ ہے دنیا کہیں جسے
سائے کا یہ نشان ابھی ہے، ابھی نہیں
ہیں دل کے اختیار میں یہ ناقہ ہائے شوق
لیکن یہ ساربان ابھی ہے، ابھی نہیں
اکبر معصوم
No comments:
Post a Comment