Saturday, 13 April 2019

خونرنگ خموشی کی گرہ کھولنے والے

خوں رنگ خموشی کی گِرہ کھولنے والے
یاں کاٹ دئیے جاتے ہیں سر بولنے والے
ہر پنجرہ کسی دوسرے پنجرے میں پڑا ہے
اڑ کر بھی کہاں جائیں گے پر تولنے والے
ممکن ہے کسی روز قلم کر دیئے جائیں
یہ ہاتھ کتابوں کے ورق پھولنے والے
زہریلی صداؤں نے جگر چیر دئیے ہیں
کس دیس گئے کانوں میں رس گھولنے والے
ہر معرکہ سر کرتا گیا بندۂ عاجز
مٹی میں ملے بول بڑا بولنے والے

سید انصر

No comments:

Post a Comment