نظم
گفتگو بند نہ ہو
بات سے بات چلے
صبح تک شامِ ملاقات چلے
وہ جو الفاظ کے ہاتھوں میں ہے سنگِ دشنام
طنز چھلکائے تو چھلکایا کریں زہر کے جام
تیکھی نظریں ہوں
ترش ابروئے خمدار رہے
بن پڑے جیسے بھی دل سینوں میں بیدار رہے
بے بسی حرف کو زنجیرِ با پا کر نہ سکے
کوئی قاتل ہو مگر قتلِ نوا کر نہ سکے
صبح تک ڈھل کے کوئی حرفِ وفا آئے گا
عشق آئے گا بصد لغزشِ پا آئے گا
نظریں جھک جائیں گی
دل دھڑکیں گے
لب کانپیں گے
خاموشی بوسۂ لب بن کے بہک جائے گی
صرف غنچوں کے چٹخنے کی صدا آئے گی
اور پھر حرف و نوا کی نہ ضرورت ہو گی
چشمِ ابرو کے اشاروں میں محبت ہو گی
نفرت اٹھ جائے گی مہمان مروّت ہو گی
ریزگاروں سے عداوت کے گزر جائیں گے
خون کے دریا سے ہم پار نکل جائیں گے
علی سردار جعفری
No comments:
Post a Comment