Wednesday, 3 April 2019

پھر اک دن ایسا آئے گا

پھر اک دن ایسا آئے گا
آنکھوں کے دئیے بجھ جائیں گے
ہاتھوں کے کنول کمھلائیں گے
اور برگ زباں سے نطق و صدا
کی ہر تتلی اڑ جائے گی
اک کالے سمندر کی تہ میں
کلیوں کی طرح سے کھلتی ہوئی
پھولوں کی طرح سے ہنستی ہوئی
ساری شکلیں کھو جائیں گی
خوں کی گردش دل کی دھڑکن
سب راگنیاں سو جائیں گی
اور نیلی فضا کی مخمل پر
ہنستی ہوئی ہیرے کی یہ کنی
یہ میری جنت میری زمیں
اس کی صبحیں اس کی شامیں
بے جانے ہوئے بے سمجھے ہوئے
اک مشت غبار انساں پر
شبنم کی طرح رو جائیں گی
ہر چیز بھلا دی جائے گی
یادوں کے حسیں بت خانے سے
ہر چیز اٹھا دی جائے گی
پھر کوئی نہیں یہ پوچھے گا
سردار کہاں ہے محفل میں

علی سردار جعفری

No comments:

Post a Comment