پھر اک دن ایسا آئے گا
آنکھوں کے دئیے بجھ جائیں گے
ہاتھوں کے کنول کمھلائیں گے
اور برگ زباں سے نطق و صدا
کی ہر تتلی اڑ جائے گی
اک کالے سمندر کی تہ میں
پھولوں کی طرح سے ہنستی ہوئی
ساری شکلیں کھو جائیں گی
خوں کی گردش دل کی دھڑکن
سب راگنیاں سو جائیں گی
اور نیلی فضا کی مخمل پر
ہنستی ہوئی ہیرے کی یہ کنی
یہ میری جنت میری زمیں
اس کی صبحیں اس کی شامیں
بے جانے ہوئے بے سمجھے ہوئے
اک مشت غبار انساں پر
شبنم کی طرح رو جائیں گی
ہر چیز بھلا دی جائے گی
یادوں کے حسیں بت خانے سے
ہر چیز اٹھا دی جائے گی
پھر کوئی نہیں یہ پوچھے گا
سردار کہاں ہے محفل میں
علی سردار جعفری
No comments:
Post a Comment