Monday 22 April 2019

اوس کی طرح خواب تھے آنکھیں نمی سے بھر گئے

اوس کی طرح خواب تھے آنکھیں نمی سے بھر گئے
رات تھی اپنی زندگی، صبح ہوئی تو مر گئے
دیکھ ہمیں تُو غور سے، تیرے جہانِ عشق میں
ہم وہ عجیب لوگ ہیں، آئے بھی اور گزر گئے
پاؤں تو کٹ چکے مِرے، شوقِ سفر کا کیا کروں
اب وہ مسافتیں کہاں، جب سے وہ ہمسفر گئے
ہجر بھی اپنا عشق تھا، وصل بھی اپنا عشق ہے
دل نے کہا بکھر گئے، دل نے کہا سنور گئے
کس کی مجال ہے کہے، ان سا سخن کہ جو ندیمؔ
کوٹ مٹھن میں آئے اور لفظوں سے جھولی بھر گئے

ندیم بھابھہ

No comments:

Post a Comment