اب تجھ سے نہیں کوئی بھی تکرار مِرے یار
میں مان گیا میری ہوئی ہار، مرے یار
ممکن ہے مری ہار سے بچ جاۓ تِری جان
تلوار اٹھا اور مجھے مار، مرے یار
میں یونہی نہیں بھاگا تھا صحراؤں کی جانب
اک خواب بناتا ہے محبت کی کہانی
اور ٹوٹ کے مر جاتے ہیں کردار مرے یار
بہتر ہے کہ ہم توڑ ہی ڈالیں یہ خموشی
بول اٹھیں گے ورنہ در و دیوار، مرے یار
یہ لوگ تِرا ہجر بھی شاید نہ نبھا پائیں
یہ لوگ نہیں قابلِ دستار، مرے یار
ندیم بھابھہ
No comments:
Post a Comment