خواب آرام نہیں، خواب پریشانی ہے
میرے بستر میں اذیت کی فراوانی ہے
مجھ کو تو وہ بھی ہے معلوم، جو معلوم نہیں
یہ سمجھ بوجھ نہیں ہے، مِری نادانی ہے
کچھ اسے سوچنے دیتا ہی نہیں اپنے سِوا
ہے مصیبت میں گرفتار مصیبت میری
جو بھی مشکل ہے وہ میرے لیے آسانی ہے
موجۂ مے ہے بہت میرے سکوں پر بیتاب
ضبطِ گریہ سے مِرے جام میں طغیانی ہے
میں گنہگارِ تمنا ہوں، مجھے قتل کرو
دل تو ہارا ہے مگر ہار نہیں مانی ہے
اکبر معصوم
No comments:
Post a Comment