Tuesday 1 January 2013

ٹکڑے ٹکڑے عمروں کی مسکان پڑی تھی

ٹکڑے ٹکڑے عمروں کی مسکان پڑی تھی
جان بدن سے دور کہیں انجان پڑی تھی
کسی کی آنکھوں میں پتھرائی حیرانی تھی
کہیں کہیں کوئی آنکھ بہت سنسان پڑی تھی
ایک طرف اک پرس پڑا تھا گڑیا کا
ایک طرف اک گڈے کی بنیان پڑی تھی
پتی پتی پھول ہوا میں بکھر گئے تھے
اور زمیں پہ جھلسی ہوئی پہچان پڑی تھی
کس چوڑی میں کس کے ہاتھوں کا ریشم تھا
کس جوتے میں کن پیروں کی شان پڑی تھی
کوئی جگر تھا، کوئی کلیجا اپنی ماں کا
کس تابوت میں جانے کس کی جان پڑی تھی

فاضل جمیلی

No comments:

Post a Comment