ٹکڑے ٹکڑے عمروں کی مسکان پڑی تھی
جان بدن سے دور کہیں انجان پڑی تھی
کسی کی آنکھوں میں پتھرائی حیرانی تھی
کہیں کہیں کوئی آنکھ بہت سنسان پڑی تھی
ایک طرف اک پرس پڑا تھا گڑیا کا
پتی پتی پھول ہوا میں بکھر گئے تھے
اور زمیں پہ جھلسی ہوئی پہچان پڑی تھی
کس چوڑی میں کس کے ہاتھوں کا ریشم تھا
کس جوتے میں کن پیروں کی شان پڑی تھی
کوئی جگر تھا، کوئی کلیجا اپنی ماں کا
کس تابوت میں جانے کس کی جان پڑی تھی
فاضل جمیلی
No comments:
Post a Comment