وہ کہکشاں، وہ رہِ رقصِ رنگ ہی نہ رہی
ہم اب کہیں بھی رہیں، جب تری گلی نہ رہی
تمہارے بعد کوئی خاص فرق تو نہ ہوا
جز ایں قدر وہ پہلی سی زندگی نہ رہی
یہ ذکر کیا کہ خرد میں بہت تصنع ہے
قلمروِ غمِ جاناں، ہوئی ہے جب سے تباہ
دل و نظر کی فضاؤں میں زندگی نہ رہی
نکال ڈالیے دل سے ہماری یادوں کو
یقین کیجیے ہم میں وہ بات ہی نہ رہی
جہاں فروز تھا یادش بخیر اپنا جنوں
پھر اُس کے بعد کسی شے میں دلکشی نہ رہی
دکھائیں کیا تمہیں داغوں کی لالہ انگیزی
گزر گئیں وہ بہاریں، وہ فصل ہی نہ رہی
وہ ڈھونڈتے ہیں سر جادۂ امید کسے؟
وہاں تو قافلے والوں کی گرد بھی نہ رہی
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment