Saturday, 5 January 2013

آپ اپنی آرزو سے بیگانے ہو گئے ہیں

آپ اپنی آرزو سے بے گانے ہو گئے ہیں
ہم شوقِ جستجو میں، دیوانے ہو گئے ہیں
فرقت میں جن کو، اپنا کہہ کہہ کر دن گزارے
وہ جب سے مل گئے ہیں بے گانے ہو گئے ہیں
کہتے ہیں قصۂ غم، ہر انجمن میں جا کر
ہم اہلِ دل بھی کیسے دیوانے ہو گئے ہیں
آنکھوں سے جو نہاں تھے اور دل میں کارفرما
وہ راز ہوتے ہوتے، افسانے ہو گئے ہیں
یا اب تری جفا میں وہ لذّتیں نہیں ہیں
یا ہم تری نظر میں بے گانے ہو گئے ہیں
گو بے تعلقی ہے اُس انجمن میں، پھر بھی
جب مل گئی ہیں نظریں، افسانے ہو گئے ہیں
ہر منزلِ طلب میں، رفتارِ پا سے اپنی
جو نقش بن گئے ہیں بت خانے ہو گئے ہیں
تعمیر کی ہوس نے، سو بار دل اُجاڑا
پہلو میں سیفؔ کتنے ویرانے ہو گئے ہیں

سیف الدین سیف

No comments:

Post a Comment