آپ اپنی آرزو سے بے گانے ہو گئے ہیں
ہم شوقِ جستجو میں، دیوانے ہو گئے ہیں
فرقت میں جن کو، اپنا کہہ کہہ کر دن گزارے
وہ جب سے مل گئے ہیں بے گانے ہو گئے ہیں
کہتے ہیں قصۂ غم، ہر انجمن میں جا کر
آنکھوں سے جو نہاں تھے اور دل میں کارفرما
وہ راز ہوتے ہوتے، افسانے ہو گئے ہیں
یا اب تری جفا میں وہ لذّتیں نہیں ہیں
یا ہم تری نظر میں بے گانے ہو گئے ہیں
گو بے تعلقی ہے اُس انجمن میں، پھر بھی
جب مل گئی ہیں نظریں، افسانے ہو گئے ہیں
ہر منزلِ طلب میں، رفتارِ پا سے اپنی
جو نقش بن گئے ہیں بت خانے ہو گئے ہیں
تعمیر کی ہوس نے، سو بار دل اُجاڑا
پہلو میں سیفؔ کتنے ویرانے ہو گئے ہیں
سیف الدین سیف
No comments:
Post a Comment