Tuesday 1 January 2013

لہو جلا کے اجالے لٹا رہا ہے چراغ

لہو جلا کے اجالے لٹا رہا ہے چراغ
کہ زندگی کا سلیقہ سکھا رہا ہے چراغ
وفورِ شوق میں لیلائے شب کے چہرے سے
نقابِ زلفِ پریشاں اٹھا رہا ہے چراغ
ہمارے ساتھ پرانے شریکِ غم کی طرح
عذابِ ہجر کے صدمے اٹھا رہا ہے چراغ
یہ روشنی کا پیمبر ہے اس کی بات سُنو
صداقتوں کے صحیفے سنا رہا ہے چراغ
شبِ سیاہ کا آسیب ٹالنے کے لیے
تمام عمر شریکِ دعا رہا ہے چراغ
ہوائے دہر چلی ہے بڑی رعُونت سے
دیارِ عشق میں کوئی جلا رہا ہے چراغ
وہ ہاتھ بھی یدِ بیضا سے کم نہیں عاجزؔ
جو خاکِ ارضِ وطن سے بنا رہا ہے چراغ

مشتاق عاجز

No comments:

Post a Comment