Friday, 25 January 2013

یہ بت پھر اب کے بہت سر اٹھا کے بیٹھے ہیں

یہ بت پھر اب کے بہت سر اٹھا کے بیٹھے ہیں
خدا کے بندوں کو اپنا بنا کے بیٹھے ہیں
ہمارے سامنے جب بھی وہ آ کے بیٹھے ہیں
تو مسکرا کے، نگاہیں چرا کے بیٹھے ہیں
کلیجا ہو گیا زخمی فراقِ جاناں میں
ہزاروں تِیرِ ستم دل پہ کھا کے بیٹھے ہیں
تم ایک بار تو رخ سے نقاب سرکا دو
ہزاروں طالبِ دیدار آ کے بیٹھے ہیں
ابھر جو آتی ہے ہر بار موسمِ گل میں
اِک ایسی چوٹ کلیجے میں کھا کے بیٹھے ہیں
یہ بت کدہ ہے، اِدھر آئیے ذرا بسملؔ
بتوں کی یاد میں بندے خدا کے بیٹھے ہیں
پسند آئے گی اب کس کی شکل بسملؔ کو
نظر میں آپ جو اس کی سما کے بیٹھے ہیں 

بسمل عظیم آبادی

No comments:

Post a Comment