بزرگِ وقت، کسی شے کو لازوال بھی کر
تُو کیسا شعبدہ گر ہے، کوئی کمال بھی کر
درخت ہوں، تو کبھی بیٹھ میرے سائے میں
میں سبزہ ہوں تو کبھی مجھ کو پائمال بھی کر
یہ تمکنت کہیں پتھر بنا نہ دے مجھ کو
میں چاہتا ہوں کہ اب جو بھی جی میں آئے کروں
تجھے بھی میری اجازت ہے جو خیال بھی کر
پگھلا رہی ہیں اس آشوبِ وقت میں صدیاں
وہ کہہ رہا ہے کہ تو فکرِ ماہ سال بھی کر
عرفان صدیقی
No comments:
Post a Comment