بڑے غرور سے جو سر اٹھائے پھرتا ہے
بلا کا بوجھ بدن پر اٹھائے پھرتا ہے
وہ جس کے دیدہ و دل روشنی کے مُنکر ہیں
وہ مہر و ماہِ منور اٹھائے پھرتا ہے
ہجومِ تشنہ لباں مشتعل نہ ہو جائے
کہ شیخ شیشہ و ساغر اٹھائے پھرتا ہے
مِلا رہا ہے جو اک ہاتھ گرم جوشی سے
وہ ایک ہاتھ میں خنجر اٹھائے پھرتا ہے
نہ کوئی قیس گلی میں، نہ بام پر لیلیٰ
ہجوم کس لیے پتھر اٹھائے پھرتا ہے
نہ جانے کس کا مقدر ہو زخمِ دل عاجزؔ
کہ سرخ پھول ستم گر اٹھائے پھرتا ہے
مشتاق عاجز
بلا کا بوجھ بدن پر اٹھائے پھرتا ہے
وہ جس کے دیدہ و دل روشنی کے مُنکر ہیں
وہ مہر و ماہِ منور اٹھائے پھرتا ہے
ہجومِ تشنہ لباں مشتعل نہ ہو جائے
کہ شیخ شیشہ و ساغر اٹھائے پھرتا ہے
مِلا رہا ہے جو اک ہاتھ گرم جوشی سے
وہ ایک ہاتھ میں خنجر اٹھائے پھرتا ہے
نہ کوئی قیس گلی میں، نہ بام پر لیلیٰ
ہجوم کس لیے پتھر اٹھائے پھرتا ہے
نہ جانے کس کا مقدر ہو زخمِ دل عاجزؔ
کہ سرخ پھول ستم گر اٹھائے پھرتا ہے
مشتاق عاجز
No comments:
Post a Comment