ہوئے جاتے ہیں کیوں غمخوار قاتل
نہ تھے اتنے بھی دلآزار قاتل
مسیحاؤں کو جب آواز دی ہے
پلٹ کر آ گئے ہر بار قاتل
ہمیشہ سے ہلاک اک دوسرے کے
تِری آنکھوں کو جاناں کیا ہوا ہے
کبھی دیکھے نہ تھے بیمار قاتل
وہاں کیا داد خواہی کیا گواہی
جہاں ہوں منصفوں کے یار قاتل
فرازؔ اس دشمنِ جاں سے گلہ کیا
ہمیشہ سے رہے دلدار قاتل
احمد فراز
No comments:
Post a Comment