Tuesday 1 January 2013

دشت افسردہ میں اک پھول کھلا ہے سو کہاں

دشتِ افسُردہ میں اک پھول کھلا ہے سو کہاں
وہ کسی خوابِ گریزاں میں مِلا ہے سو کہاں
ہم نے مدت سے کوئی ہجو نہ واسوخت کہی
وہ سمجھتے ہیں ہمیں اُن سے گلہ ہے سو کہاں
ہم تیری بزم سے اُٹھے بھی تو خالی دامن
لوگ کہتے ہیں کہ ہر دُکھ کا صلہ ہے سو کہاں
آنکھ اسی طور برستی ہے تو دل رستا ہے
یوں تو ہر زخم قرینے سے سِلا ہے سو کہاں
بارہا کوچۂ جاناں سے بھی ہو آئے ہیں
ہم نے مانا کہیں جنت بھی دلا ہے سو کہاں
جلوۂ دوست بھی دُھندلا گیا آخر کو فرازؔ
ورنہ کہنے کو تو غم، دل کی جلا ہے سو کہاں

احمد فراز

No comments:

Post a Comment