Friday, 25 January 2013

نقش کچھ اور سرِ خاک ابھارا جائے

نقش کچھ اور سرِ خاک اُبھارا جائے
آسمانوں سے ستاروں کو اُتارا جائے
آ مجھے تُو ہی بتا، وقت ٹھہر جائے تو
دشت تنہائی میں کس طرح گزارا جائے
کشتیاں ڈُوب چکیں اور وہ اس سوچ میں ہے
اب سمندر ہی کنارے پہ اُتارا جائے
ہم تو جاں سے بھی گزر جائیں، ہمارا کیا ہے
اور تم خوش کہ ابھی کچھ نہ تمہارا جائے
کیا کریں، خوئے نگاراں ہی کچھ ایسی ہے کہ بس
دل بھی پہلو سے سوا، چین بھی سارا جائے
ایسا تنہا بھی نہیں ہوں لبِ دریا خالدؔ
دُور تک ساتھ مِرے ایک کنارا جائے

خالد علیم

No comments:

Post a Comment