Friday 25 January 2013

اسی سے جان گیا میں کہ بخت ڈھلنے لگے

اسی سے جان گیا میں کہ بخت ڈھلنے لگے
میں تھک کے چھاؤں میں بیٹھا تو پیڑ چلنے لگے
میں دے رہا تھا سہارے تو اک ہجوم میں تھا
جو گر پڑا تو سبھی راستہ بدلنے لگے
نہ مارتے ہیں مُجھے اور نہ جینے دیتے ہیں
یہ کیسے سانپ میری آستیں میں پلنے لگے
وہ یُوں شریک ہوئے میری پیاس کے دُکھ میں
لب فرات کھڑے اپنے ہاتھ ملنے لگے
کیس کے ہاتھ میں جاں کسی کے ہاتھ میں دل
بھلا یہاں پہ کوئی کس طرح سنبھلنے لگے
بُھگت لیا وہیں خمیازہ تنگ نظری کا
بدن بچانے لگے تھے کہ شہر جلنے لگے

فرحت عباس شاہ

No comments:

Post a Comment