اسی سے جان گیا میں کہ بخت ڈھلنے لگے
میں تھک کے چھاؤں میں بیٹھا تو پیڑ چلنے لگے
میں دے رہا تھا سہارے تو اک ہجوم میں تھا
جو گر پڑا تو سبھی راستہ بدلنے لگے
نہ مارتے ہیں مُجھے اور نہ جینے دیتے ہیں
وہ یُوں شریک ہوئے میری پیاس کے دُکھ میں
لب فرات کھڑے اپنے ہاتھ ملنے لگے
کیس کے ہاتھ میں جاں کسی کے ہاتھ میں دل
بھلا یہاں پہ کوئی کس طرح سنبھلنے لگے
بُھگت لیا وہیں خمیازہ تنگ نظری کا
بدن بچانے لگے تھے کہ شہر جلنے لگے
فرحت عباس شاہ
No comments:
Post a Comment