Tuesday 1 January 2013

بتوں کے در سے کسی کو کبھی خدا نہ ملا

بتوں کے در سے کسی کو کبھی خدا نہ ملا
ملا جسے بھی رگِ جاں سے ماورا نہ ملا
حریمِ دل سے جو آتی ہے کن فیکن کی صدا
سنی ہے جس نے اسے خود کا پھر پتہ نہ ملا
خدا کو ڈھونڈ لیا ہم نے میکدے میں مگر
صنم کدوں سے تمہیں کوئی ناخدا نہ ملا
سقوطِ ہجر میں آنسو پئے کہ غم کھایا
مریضِ شب کو انوکھا یہ آب و دانہ ملا
سفر ہے عشق کا تنہا ہی کاٹنا ہو گا
کہ اس سفرمیں کسی کو بھی دوسرا نہ ملا
بلادِ نور کے مقتل پہ سارے پیاسے تھے
وجودِ چشمۂ آبِ صفا نہ تھا نہ ملا
غزل سرا ہے مِری قبر پر مرا قاتل
کہ ذوق اس کو مِرے بعد شاعرانہ ملا
سمندروں کا سفر ہو کہ تپتے صحرا کا
سفیرِ دشت کے سر پر کبھی ہما نہ ملا
چراغ جلتے رہے اور بجھ گئیں آنکھیں
وصالِ یار کہاں کوئی نقشِ پا نہ ملا
حضورِ حسن پہ درویشؔ جاں لٹا کے چلے
مِرے تو ایک نئی زیست کا بہانہ ملا

فاروق درویشؔ

No comments:

Post a Comment