Tuesday 1 January 2013

اے مسافر آرزو کا راستہ کیسا لگا

اے مسافر! آرزو کا راستہ کیسا لگا
زیرِ پائے شوق، پہلا آبلہ کیسا لگا
اڑتے بادل کے تعاقب کا نتیجہ کیا رہا
عشق میں دیوانگی کا تجربہ کیسا لگا
دو جہاں دامن میں بھر لینے کی خواہش کیا ہوئی
اپنی بانہوں کا سِمٹتا دائرہ کیسا لگا
تم کہ تھے مظلوم کے حامی، تمہارا کیا بنا
جب ہوا ظالم کے حق میں فیصلہ، کیسا لگا
زندگی کو تم سمجھتے تھے ہنسی کی داستاں
داستاں پر، آنسوؤں کا تبصرہ کیسا لگا
کیسے کیسے خواب دیکھے پہلی پہلی عمر میں
اور جب اترا جوانی کا نشہ، کیسا لگا
خوش ہوا کرتے تھے عاجزؔ تم کھلونے توڑ کر
اب جو ٹوٹا ہے انا کا آئینہ کیسا لگا

مشتاق عاجز

No comments:

Post a Comment