Tuesday, 1 January 2013

نغمۂ شوق مرا جنبشِ لب تک پہنچا

نغمۂ شوق مِرا، جُنبشِ لب تک پہنچا
سلسلہ تیری تمنّا کا طلب تک پہنچا
ایک خُوشبو سی مِرے سنگ سفر پر نکلی
ایک سایہ سا دبے پاؤں عقب تک پہنچا
موسمِ گُل نے مہکنے کی اجازت چاہی
موجۂ بادِ صبا، غنچۂ لب تک پہنچا
عشق الہام کی صُورت مرے دل پر اُترا
ایک الزام مِرے نام  و نسب تک پہنچا
بین کرتے ہوئے سُر سینۂ نَے سے نکلے
شعلۂ سوزِ نفس، شہرِ طرب تک پہنچا
تُو کہ سُورج تھا مگر شام ڈھلے ڈُوب گیا
میں کہ جگنُو تھا، مگر قریۂ شب تک پہنچا
اور کیا اِس سے سوا حُسنِ طلب ہے عاجزؔ
حد سے گزرا بھی تو میں حدِ ادب تک پہنچا

مشتاق عاجز

No comments:

Post a Comment