کسی حال میں نہیں ہوں کوئی حال اب نہیں ہے
جو گئی پلک تلک تھا، وہ خیال اب نہیں ہے
میں سکون پا سکوں گا یہ گماں بھی کیوں کیا تھا
ہے یہی ملال کیا کم، کہ ملال اب نہیں ہے
نہ رہے اب اس کے دل میں خلشِ شکستِ وعدہ
یہ دیارِ دِید کیا ہے گئے دشتِ دل سے بھی ہم
کہ ختن زمین میں بھی وہ غزال اب نہیں ہے
جو لئے لئے پِھری ہے تجھے روز اِک نگر میں
مرے دل ترے نگر میں وہ مثال اب نہیں ہے
لبِ پُر سوال لے کے ہمیں کُو بہ کُو ہے پھِرنا
ہو کوئی جواب بر لب، یہ سوال اب نہیں ہے
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment