کیا سوچتے رہتے ہو سدا، رات گئے تک
کس قرض کو کرتے ہو ادا، رات گئے تک
تھک ہار کے آ بیٹھا ہے، دہلیز پہ تیری
دیدار کا محسنؔ ہے گدا، رات گئے تک
یہ کون ہے یوسفؑ سا حسِیں ڈھونڈ رہا ہے
آ طُور پہ چلتے ہیں، ابھی رات ہے باقی
شاید ہمیں مل جائے خدا، رات گئے تک
شمع تیری آمد کو جلائی تھی سرِ شام
ہوتے رہے پروانے فدا، رات گئے تک
کچھ عالمِ تنہائی میں اشکوں نے دیا ساتھ
آنکھیں رہیں سیلاب زدہ، رات گئے تک
محسنؔ کو شبِ وصل ملا جام بَمشکل
ہو پائے نہ پھر دونوں جدا، رات گئے تک
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment