Thursday 31 October 2013

اذل کی شاخوں سے رنگ لاکھوں جھڑے ہوئے تھے

اذل کی شاخوں سے رنگ لاکھوں جھڑے ہوئے تھے
ہماری آنکھوں میں دشت و صحرا گڑے ہوئے تھے
نجانے کس کا ظہور پانی سے ہو رہا تھا
عجیب ساعت تھی سب زمانے کھڑے ہوئے تھے
ہماری باتوں میں زہر کتنا گھلا ہوا تھا
ہماری سوچوں کو سانپ کتنے لڑے ہوئے تھے
زمیں سے رشتے کا مان پیڑوں کو اس قدر تھا
کہ استقامت سے پاؤں ان کے گڑے ہوئے تھے
ہمارے رستے میں فوج پیڑوں کی آ گئی تھی
انہی جوانوں سے کھیلتے ہم بڑے ہوئے تھے
ہم اپنی لاشوں کے گرد بیٹھے تھے خامشی سے
ہماری سوچوں میں لفظ مردہ پڑے ہوئے تھے
ہم ایک اژدر سے لڑ رہے تھے نجانے کب سے
اسی کے نرغے میں سب کے خیمے گڑے ہوئے تھے
ہماری سوچوں کو صاف کرنا کہاں تھا ممکن
کہ ایک دریا لاکھ نالے پڑے ہوئے تھے

توقیر عباس

No comments:

Post a Comment