Saturday 26 October 2013

کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے

کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشِیں رہے
جب تک ہمارے پاس رہے، ہم نہیں رہے
ایمان و کفر اور نہ دنیا و دِیں رہے
اے عشق! شادباش کہ تنہا ہمِیں رہے
یارب! کسی کے رازِ محبت کی خیر ہو
دستِ جنوں رہے نہ رہے، آستیں رہے
دردِ غمِ فراق کے یہ سخت مرحلے
حیراں ہوں میں کہ پھر بھی تم، اتنے حسِیں رہے
جا اور کوئی ضبط کی دنیا تلاش کر
اے عشق! ہم تو اب تیرے قابل نہیں رہے
مجھ کو نہیں قبول دو عالم کی وسعتیں
قسمت میں کوئے یار کی دو گز زمیں رہے
اللہ رے چشمِ یار کی مُعجز بیانیاں
ہر اک کو ہے گماں کہ مخاطب ہمِیں رہے
اس عشق کی تلافئ مافات دیکھنا
رونے کی حسرتیں ہیں جب آنسو نہیں رہے

جگر مراد آبادی

No comments:

Post a Comment