Wednesday 30 October 2013

یہ بادلوں میں ستارے ابھرتے جاتے ہیں

یہ بادلوں میں ستارے ابھرتے جاتے ہیں
کہ آسماں کو پرندے کترتے جاتے ہیں
تمہارے شہر میں تہمت ہے زندہ رہنا بھی
جنہیں عزیز تھیں جانیں وہ مرتے جاتے ہیں
نہ جانے کب تمہیں فرصت ملے گی آنے کو
تمہارے آنے کے دن گزرتے جاتے ہیں
کہا تو یہ تھا کہ چھوڑیں انا کی مسند کو
مگر یہ لوگ تو دل سے اترتے جاتے ہیں
کہاں سے آئی ہے تابشؔ یہ سر پھری آندھی
کہ جس قدر بھی دیئے تھے بکھرتے جاتے ہیں

عباس تابش

No comments:

Post a Comment