یہ بادلوں میں ستارے ابھرتے جاتے ہیں
کہ آسماں کو پرندے کترتے جاتے ہیں
تمہارے شہر میں تہمت ہے زندہ رہنا بھی
جنہیں عزیز تھیں جانیں وہ مرتے جاتے ہیں
نہ جانے کب تمہیں فرصت ملے گی آنے کو
کہا تو یہ تھا کہ چھوڑیں انا کی مسند کو
مگر یہ لوگ تو دل سے اترتے جاتے ہیں
کہاں سے آئی ہے تابشؔ یہ سر پھری آندھی
کہ جس قدر بھی دیئے تھے بکھرتے جاتے ہیں
عباس تابش
No comments:
Post a Comment