جہان مرگ صدا میں اک اور سلسلہ ختم ہو گیا ہے
کلام، یعنی خدا کا ہم سے مکالمہ ختم ہو گیا ہے
ہمیں تو بس یہ پتا چلا تھا کہ اونٹوں والے چلے گئے ہیں
کسی کو اس کی خبر نہیں جو معاملہ ختم ہو گیا ہے
نہ تتلیوں جیسی دوپہر ہے نہ اب وہ سورج گلاب جیسا
تمہاری باتوں کے جن پہ شہتوت جھڑ رہے ہوں وہی بتائیں
کہ تلخ آباد میں ہمارا تو ذائقہ ختم ہو گیا ہے
ہماری آنکھوں سے خواب و خس کے تمام پشتے ہٹائے جائیں
ہمارا ناراض پانیوں سے معاہدہ ختم ہو گیا ہے
اب اس لئے بھی ہمیں محبت کو طول دینا پڑے گا تابشؔ
کسی نے پوچھا تو کیا کہیں گے کہ سلسلہ ختم ہو گیا ہے
عباس تابش
No comments:
Post a Comment