Sunday, 13 October 2013

ساکن عہد رواں جانا گیا

ساکنِ عہدِ رواں جانا گیا
میں کہاں تھا اور کہاں جانا گیا
جان بیٹھے ہیں جہاں کو ہم مگر
تُو نہیں جانِ جہاں جانا گیا
میں زمیں کا وہ نہالِ کم نصیب
جس کو نخلِ آسماں جانا گیا
بخت کی زنجیر چھنکاتے ہوئے
تھا مقدّر میں جہاں جانا گیا
خیر میں تو وہم تھا اور وہم ہوں
تجھ کو بھی جاناں گُماں جانا گیا
ہائے اب ہم کیا کریں اس عہد میں
عشق کارِ رائیگاں جانا گیا
جسکے پتھر میں نے جوڑے تھے کبھی
اُس کو تیرا آستاں جانا گیا
قیس تنہا چل رہا تھا دَشت میں
اج اُس کو کارواں جانا گیا
ماننے میں اِک سہولت جان کر
جاننا جی کا زیاں جانا گیا
ایک مدّت کی ہماری کھوج سے
ایک حُسنِ جاوداں جانا گیا
بولتے رہنا جہانِ شور میں
کم سُخن کو بے زباں جانا گیا
دُوریوں کا زہر تھا پھیلا ہوا
جس کو نیلا آسمان جانا گیا

شہزاد نیر

No comments:

Post a Comment