Thursday, 31 October 2013

ريت سے بھی ديوار اٹھانی پڑ جاتی ہے

ريت سے بھی ديوار اٹھانی پڑ جاتی ہے
دشمن سے بھی آس لگانی پڑ جاتی ہے
سچ پوچھو تو منہ مٹی سے بھر جاتا ہے
گری ہوئی جب بات اٹھانی پڑ جاتی ہے
بات زباں کے بس سے باہر ہو جائے تو
آنکھوں سے آواز لگانی پڑ جاتی ہے
تيرے ہاتھ کا لمس ميسّر آجائے تو
ميرے کاموں ميں آسانی پڑ جاتی ہے
اکثر فکر و فہم کے ناديدہ رَخنوں سے
نئے سخن ميں بات پرانی پڑ جاتی ہے
صحراؤں سے يارانے پر تُل جائيں تو
درياؤں کی خير منانی پڑ جاتی ہے
ايسے بھی کچھ دکھ ہوتے ہيں، جنکی خاطر
خوشيوں کو بھی آگ لگانی پڑ جاتی ہے

کبیر اطہر

No comments:

Post a Comment