بندگی کو مثال کرتے ہم
اس گلی میں دھمال کرتے ہم
رقص کرتے زمیں پہ دائرہ وار
آسماں کو نڈھال کرتے ہم
قبلِ سجدہ ذرا سی مے پی کر
ایک کاغذ کو دشت کرتے ہوئے
اک غزل کو غزال کرتے ہم
آپ تو لاجواب ہیں صاحب
آپ سے کیا سوال کرتے ہم
ہم سے کچھ بھی نہ ہو سکا لیکن
کچھ جو کرتے کمال کرتے ہم
ہوتے صف آرا خود جو اپنے خلاف
ہاں یقیناً قتال کرتے ہم
ہم نے اب نوحہ کرنا چھوڑ دیا
کتنی آنکھوں کو لال کرتے ہم
عارف امام
No comments:
Post a Comment