Friday 29 November 2013

لبوں سے لفظ جھڑیں آنکھ سے نمی نکلے

لبوں سے لفظ جھڑیں آنکھ سے نمی نکلے
کسی طرح تو میرے دل سے بے دلی نکلے
میں چاہتا ہوں پرندے رہا کیے جائیں
میں چاہتا ہوں تیرے ہونٹ سے ہنسی نکلے
میں چاہتا ہوں کوئی مجھ سے بات کرتا رہے
میں چاہتا ہوں کہ اندر کی خامشی نکلے
میں چاہتا ہوں مجھے طاقچے میں رکھا جائے
میں چاہتا ہوں جلوں اور روشنی نکلے
میں چاہتا ہوں تیرے ہجر میں عجیب ہو کچھ
میں چاہتا ہوں چراغوں سے تیرگی نکلے
میں چاہتا ہوں تجھے مجھ سے عشق ہو جائے
میں چاہتا ہوں کہ صحرا سے جل پری نکلے
میں چاہتا ہوں مجھے کوئی درد دان کرے
میں چاہتا ہوں کہ آنسو ہنسی خوشی نکلے
میں چاہتا ہوں کہ یہ راہ بحال ہو پھر سے
ہماری آنکھ سے دل تک کوئی گلی نکلے

تہذیب حافی

No comments:

Post a Comment